Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بچے کو گھر میں پڑی ادویات سے بچانے کے گُر

ماہنامہ عبقری - مئی 2016ء

فوری طور پر جائزہ لیں کہ بچے نے کونسی دوا کھائی ہے، اندازاً اس کی مقدار کیا ہوسکتی ہے۔٭ جائزہ میں زیادہ وقت صرف نہ کریں اور بچے کو فوری طور پر ہسپتال لے جائیں۔٭ وہ بوتل یا ڈبہ بھی ساتھ لے جائیں تاکہ معالج کو علاج تجویز کرنے میں آسانی ہو۔

عام طور پر بیمار پڑنے پر بچے دوا نہیں کھاتے ہیں ایک ہنگامہ مچادیتے ہیں، بچوں کی بڑی تعداد بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے کتراتی ہے، غالباً انجکشن کا ڈر انہیں لرزا دیتا ہے۔ دوسری طرف عام حالات میں گھر میں ’’دوا‘‘ رکھنا اور انہیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھنا خاصا کڑا مرحلہ ہوتا ہے۔ بچے گھروں میں جو کھیل کھیلتے ہیں ان میں ’’ ڈاکٹر، ڈاکٹر‘‘ بہت مقبول ہے۔ ایک بچہ ڈاکٹر بن جاتا ہے، باقی بچے مریض، دوا کے طور پر رنگ برنگی گولیاں اور رنگ دار پانی یا شربت استعمال کیا جاتا ہے۔ ا س بات کا امکان بھی رہتا ہے کہ بچے کھیل کیلئے گھر میں موجود ادویات ہی استعمال نہ کر بیٹھیں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ مریض کو اپنے ہی سامنے ’’دوا‘‘ کھانے کا حکم دیں اور بے چارہ مریض کوئی نقصان دہ دوا کھانے پر مجبور ہوجائے۔’’دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں‘‘ بظاہر یہ عام سا جملہ ہے لیکن یہ عمل بے حد ضروری ہے۔ یوں تو ہمارے بڑوں کی اکثریت بھی ایسی ہے جن کی پہنچ سے دوائیں دور رہنا بلکہ رکھنا ضروری ہے۔ بچے، بڑوں کی نقل کرتے ہیں وہ چپکے چپکے بڑوں کی حرکتوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اب ہوا یہ کہ ابا جان کو کھانسی ہوئی انہوں نے سگریٹ نوشی چھوڑنے کے بجائے گھر میں موجود کھانسی کی وہ دوا طلب کی جو چند ماہ قبل ڈاکٹر صاحب نے کسی اور کیلئے تجویز کی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ کھانے کی دوا تو ہے جو رکھے رکھے ضائع ہوجائے گی، کیوں نہ استعمال کرلی جائے، اب انہیں اس سے فائدہ ہو یا نہ ہو بچے نے سیکھ لیا کہ کھانسی ہوتو اس کا علاج کیا ہے؟ سمجھ میں آنے والے درد کیلئے درد دور کرنے والی ادویات کا استعمال بھی ایک ایسی ہی مثال ہے کچھ لوگ تو اپنے طور پر مختلف امراض کی ادویات گھر میں لازمی طور پر رکھتے ہیں اور بڑے اعتماد کے ساتھ یہ ادویات سب کو تجویز کرتے رہتے ہیں۔ کچھ ادویات بڑوں کیلئے ہوتی ہیں، یہ بچوں کو نہیں دی جاتی ہیں مگر بڑے اکثر اس کا خیال نہیں رکھتے ہیں، کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کوئی فنی مہارت نہ رکھنے والے دکاندار کے مشورے سے ’’تیر بہدف دوا‘‘ استعمال کرلیتے ہیں۔ بچے اپنی نادانی میں یا کھیل کھیل میں کوئی بھی دوا کھایا پی سکتے ہیں، یہ ہوتی بھی تو رنگ برنگی اور مختلف ذائقوں والی ہیں۔ بالکل بچوں کی پسندیدہ سویٹس اور شربت کی طرح، کچھ والدین دوا نہ پینے والے بیمار بچوں کو لالچ دیتے ہیں کہ یہ دوا نہیں بنٹی ہے یا مزے مزے کا شربت ہے۔ مشابہت سے بچوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن وہ اسے سچ سمجھ لیتے ہیں۔ اب وہ کسی وقت دوا کی گولیاں بنٹی سمجھ کر کھالیں یا مزے مزے کا شربت اپنے طور پر پی لیں تو انہیں قصور وار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، کچھ بھی کرسکتے ہیں، مگر آپ تو بچے نہیں، لہٰذا آپ خیال رکھیں کہ ٭ گھر میں بلا ضرورت ادویات جمع نہ ہوں۔٭ ضروری ادویات محفوظ طریقے پر رکھی جائیں۔٭ بچوں کو قابل فہم انداز میں سمجھائیں کہ یہ دوائیں ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء نہیں ہیں۔٭ استعمال میں نہ آنے والی ادویات کو ضائع کردیں۔ ٭ بچ رہ جانے والی ادویات جمع کرکے انہیں ضرورت مندوں تک پہنچانے والے رفاہی اداروں کو ایسی ادویات دی جاسکتی ہیں۔٭ میڈیکل کی مفت سہولت کو اپنا لازمی حق نہ سمجھیں اور گھر کو دواخانہ مت بنائیں۔٭ رکھی گئی ادویات کو پابندی سے چیک کریں، ان کے استعمال کی حتمی مدت کا خیال رکھیں تاکہ وقت گزرنے کے بعد انہیں ضائع کیا جاسکے۔٭ ادویات اس کے ڈبے میں رکھیں، ادویات کی بوتلوں پر موجود لیبل جوں کا توں رہنے دیں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کی احتیاط کے باوجود کوئی بچہ اپنی حماقت یا بھولے پن میں کوئی دوا کھالے، اس صورت میں اسے برا بھلا کہنے یا مارنے پیٹنے کے بجائے آپ وہ کریں جو آپ کے اور بچے کے حق میں ضروری ہے۔
٭ فوری طور پر جائزہ لیں کہ بچے نے کونسی دوا کھائی ہے، اندازاً اس کی مقدار کیا ہوسکتی ہے۔٭ جائزہ میں زیادہ وقت صرف نہ کریں اور بچے کو فوری طور پر ہسپتال لے جائیں۔
٭ وہ بوتل یا ڈبہ بھی ساتھ لے جائیں تاکہ معالج کو علاج تجویز کرنے میں آسانی ہو۔٭ اپنے طور پر کوئی تدبیر کرنے کی کوشش مت کریں۔٭ بعض اوقات مغالطے میں دوا کی جگہ کوئی اور دوا یا کوئی نقصان دہ شے کھائی جاسکتی ہے، اس صورت میں معالج سے فوری رابطہ اور اسے حقیقت سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ موجودہ دور کے بچے ذہین ہیں، بھلی بری باتوں کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ انہیں دوائوں سے دور رہنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ اگر وہ ’’ڈاکٹر ڈاکٹر‘‘ کھیلنا ہی چاہتے ہیں تو انہیں کھلونا آلات دلائے جاسکتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کھیل میں انجکشن کیلئے استعمال شدہ سرنج نہایت ہی خطرناک امکانات رکھتی ہے۔ یہ سرنج بچے کہیں سے بھی حاصل کرسکتے ہیں، لہٰذا انہیں سختی سے تنبیہ کیجئے کہ وہ ایسی حرکت نہ کریں، یہ ظاہر ہے کہ آپ گھر میں استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ سرنج کیوں رکھنے لگے؟
بچوں کو ناشتہ کرانے کے آسان طریقے
تمام ماہرین صحت و تعلیم اس بات سے متفق ہیں کہ ناشتہ بچوں کیلئے ایندھن کی حیثیت رکھتا ہے جو بچے کو پورا دن ذہنی اور جسمانی طور پر چاق و چوبند رکھتا ہے۔ حالیہ ریسرچ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ناشتہ کرکے سکول جانے والے بچے بغیر ناشتہ کیے سکول جانے والے بچوں کے مقابلے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ بچوں کو ناشتے میں رغبت دلانے کے لئے کون سے طریقے مؤثر رہتے ہیں۔ہمیشہ ہلکی پھلکی غذا دیجئے: ایسے تمام کھانے جن میں چکنائی کی زیادتی ہوتی ہے وہ بچوں میں سستی پیدا کرتے ہیں اس لئے زیادہ تلے اور بھاری کھانوں سے پرہیز کیجئے، اس کے علاوہ تیز مرچ مصالحوں کے کھانوں سے بھی بچوں کو دور رکھیں۔ کوشش کریں کہ انہیں تازہ پھل، دودھ یا جوس وغیرہ فراہم کریں۔ یہ بچے زیادہ شوق سے کھائیں گے۔ بچے کی پسند کو مدنظر رکھیں: بچوں کو ناشتہ دینے کیلئے اس بات کا خیال ضرور رکھئے کہ آپ کا بچہ کس طرح کا کھانا پسند کرتا ہے۔ اگر آپ پھل دینا چاہ رہی ہیں تو بچے کی پسند پوچھ لیجئے۔ اسی طرح اگر بچہ صرف سادہ دودھ پینا نہیں کرتا تو اس میں اوولیٹن وغیرہ ڈال دیجئے۔
بچوں کی پسند میں رہنمائی کیجئے: اگر آپ کا بچہ صرف اپنی پسندیدہ چیز ہی کھانے پر اصرار کرتا ہے اور یہ اس کا معمول بن چکا ہے تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی پسند میں خاطر خواہ تبدیلی لائی جائے۔ آپ اپنے بچے کو اپنے ساتھ بازار لے جائیں اور ایسی تمام چیزیں جن کو کھانے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتا ان کے فوائد سے انہیں آگاہ کریں۔
صحت کی اہمیت سے آگاہ کریں: انہیں بتائیں کہ صرف چاکلیٹ اور ٹافیاں کھاکر ہی صحت مند نہیں رہا جاسکتا۔ انہیں کہیں کہ ناشتہ کرنے سے وہ جلد بڑا ہوجائے گا، اس کی ہڈیاں مضبوط ہوں گی اور سکول کا کام بھی جلد اور بغیر تھکے مکمل کرلیا کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ نئے ذائقے متعارف کرائیں: بچے کے ذہن میں یہ چیز بٹھائیں کہ آپ اس سے کتنا پیارکرتی ہیں، اس کی صحت کی آپ کو فکر رہتی ہے اور یہ کہ اس کا صحت مند رہنا آپ کے لئے بہت ضروری ہے۔

ہفتہ وار شیڈول بنائیں: ممکن ہوتو ہفتہ وار شیڈول بنائیں اور اسے کیلنڈر کی طرح دیوار پر لٹکادیں اور بچے کی کھانے کی چیزوں کے سامنے ان کی تصویریں وغیرہ لگادیں تاکہ انہیں کھانے میں رغبت پیدا ہوسکے۔ بچے چونکہ پڑھ نہیں سکتے لیکن تصاویر دیکھ کر وہ کھانے پر آمادہ ہوں گے۔ ناشتے کی تیاری میں مدد لیں: باورچی خانے کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بچوں سے مدد لیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ڈبل روٹی کے سلائس کاٹ رہی ہیں تو انہیں بھی یہی کرنے دیں۔ انہیں کہیں کہ اپنا تیار کیا سلائس خود کھائو، دیکھنا کتنا مزا آئے گا۔ ساتھ بیٹھا کر ناشتہ کرالیں: کوشش کریں کہ بچوں کو ساتھ بٹھاکر ناشتہ کرایا جائے۔ اس سے بچوں میں ماں باپ کی شفقت کا احساس رہتا ہے۔ وہ آپ کو ناشتہ کرتے دیکھ کر خود بھی کھانے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 713 reviews.